تفسير ابن كثير



سورۃ البقرة

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ[172] إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ[173]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھائو جو ہم نے تمھیں عطا فرمائی ہیں اور اللہ کا شکر کرو، اگر تم صرف اس کی عبادت کرتے ہو۔ [172] اس نے تو تم پر صرف مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور ہر وہ چیز حرام کی ہے جس پر غیر اللہ کا نام پکارا جائے، پھر جو مجبور کر دیا جائے، اس حال میں کہ نہ بغاوت کرنے والا ہو اور نہ حد سے گزرنے والا تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ [173]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اے ایمان والو! جو پاکیزه چیزیں ہم نے تمہیں دے رکھی ہیں انہیں کھاؤ، پیو اور اللہ تعالیٰ کا شکر کرو، اگر تم خاص اسی کی عبادت کرتے ہو [172] تم پر مرده اور (بہا ہوا) خون اور سور کا گوشت اور ہر وه چیز جس پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے پھر جو مجبور ہوجائے اور وه حد سے بڑھنے واﻻ اور زیادتی کرنے واﻻ نہ ہو، اس پر ان کے کھانے میں کوئی گناه نہیں، اللہ تعالیٰ بخشش کرنے واﻻ مہربان ہے [173]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اے اہل ایمان جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو عطا فرمائیں ہیں ان کو کھاؤ اور اگر خدا ہی کے بندے ہو تو اس (کی نعمتوں) کا شکر بھی ادا کرو [172] اس نے تم پر مرا ہوا جانور اور لہو اور سور کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے حرام کردیا ہے ہاں جو ناچار ہوجائے (بشرطیکہ) خدا کی نافرمانی نہ کرے اور حد (ضرورت) سے باہر نہ نکل جائے اس پر کچھ گناہ نہیں۔ بےشک خدا بخشنے والا (اور) رحم کرنے والا ہے [173]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 172، 173،

حلال اور حرام کیا ہے؟ ٭٭

اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ تم پاک صاف اور حلال طیب چیزیں کھایا کرو اور میری شکر گزاری کرو، لقمہ حلال دعا عبادت کی قبولیت کا سبب ہے اور لقمہ حرام عدم قبولیت کا، مسند احمد میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لوگو اللہ تعالیٰ پاک ہے وہ پاک چیز کو قبول فرماتا ہے اس نے رسولوں کو اور ایمان والوں کو حکم دیا کہ وہ پاک چیزیں کھائیں اور نیک اعمال کریں فرمان ہے آیت «يٰٓاَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا» [ 23۔ المؤمنون: 51 ] ‏‏‏‏ اور فرمایا آیت «يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَاشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ» [ 2۔ البقرہ: 172 ] ‏‏‏‏ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص لمبا سفر کرتا ہے وہ پراگندہ بالوں والا غبار آلود ہوتا ہے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر دعا کرتا ہے اور گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے لیکن اس کا کھانا پینا لباس اور غذا سب حرام کے ہیں اس لیے اس کی اس وقت کی ایسی دعا بھی قبول نہیں ہوتی۔ [صحیح مسلم:1015] ‏‏‏‏ حلال چیزوں کا ذکر کرنے کے بعد حرام چیزوں کا بیان ہو رہا ہے کہ تم پر مردار جانور جو اپنی موت آپ مر گیا ہو جسے شرعی طور پر ذبح نہ کیا گیا ہو حرام ہے خواہ کسی نے اس کا گلا گھونٹ دیا ہو یا لکڑی اور لٹھ لگنے سے مر گیا ہو کہیں سے گر پڑا ہو اور مر گیا ہو یا دوسرے جانوروں نے اپنے سینگ سے اسے ہلاک کر دیا ہو یا درندوں نے اسے مار ڈالا ہو یہ سب میتہ میں داخل ہیں اور حرام ہیں لیکن اس میں سے پانی کے جانور مخصوص ہیں وہ اگرچہ خودبخود مر جائیں تو بھی حلال ہیں۔ آیت «اُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهٗ مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ» [ 5۔ المائدہ: 96 ] ‏‏‏‏ اس کا پورا بیان اس آیت کی تفسیر میں آئے گا۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔

عنبر نامی جانور کا مرا ہوا ملنا اور صحابہ کا اسے کھانا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہونا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسے جائز قرار دینا یہ سب باتیں حدیث میں ہیں۔ [صحیح بخاری:4360] ‏‏‏‏ ایک اور حدیث میں ہے کہ سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردہ حلال ہے، [سنن ابوداود:83، قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏ ایک اور حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دو مردے اور دو خون ہم پر حلال ہیں مچھلی اور ٹڈی کلیجی اور تلی، [سنن ابن ماجه:3314، قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏ سورۃ المائدہ میں اس کا بیان تفصیل وار آئے گا۔ ان شاءاللہ۔
616

مسئلہ ٭٭

مردار جانور کا دودھ اور اس کے انڈے جو اس میں ہوں نجس ہیں امام شافعی رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے اس لیے کہ وہ بھی میت کا ایک جزو ہے، امام مالک رحمتہ اللہ سے ایک روایت میں ہے کہ تو وہ پاک لیکن میت میں شامل کی وجہ سے جنس ہو جاتا ہے، اسی طرح مردار کی کھیس [ کھیری ] ‏‏‏‏ بھی مشہور مذہب میں ان بزرگوں کے نزدیک ناپاک ہے گو اس میں اختلاف بھی ہے، صحابہ رضی اللہ عنہم کا مجوسیوں کا پنیر کھانا گو بطور اعتراض ان پر وارد ہو سکتا ہے مگر اس کا جواب قرطبی رحمہ اللہ نے یہ دیا ہے کہ دودھ بہت ہی کم ہوتا ہے اور کوئی بہنے والی ایسی تھوڑی سی چیز اگر کسی مقدار میں زیادہ بہنے والی میں بڑ جائے تو کوئی حرج نہیں۔
617

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گھی اور پنیر اور گورخر کے بارے میں سوال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال بتایا اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا اور جس کا بیان نہیں وہ سب معاف ہیں۔ [سنن ترمذي:1726، قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏ پھر فرمایا تم پر سور کا گوشت بھی حرام ہے خواہ اسے ذبح کیا ہو خواہ وہ خود مر گیا ہو، سور کی چربی کا حکم بھی یہی ہے اس لیے کہ چونکہ اکثر گوشت ہی ہوتا ہے اور چربی گوشت کے ساتھ ہی ہوتی ہے پس جب گوشت حرام ہوا تو چربی بھی حرام ہوئی، دوسرے اس لیے بھی کہ گوشت میں ہی چربی ہوتی ہے اور قیاس کا تقاضا بھی یہی ہے۔ پھر فرمایا کہ جو چیز اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کے نام پر مشہور کی جائے وہ بھی حرام ہے جاہلیت کے زمانہ میں کافر لوگ اپنے معبودان باطل کے نام پر جانور ذبح کیا کرتے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا۔
618

ایک مرتبہ ایک عورت نے گڑیا کے نکاح پر ایک جانور ذبح کیا تو حسن بصری رحمہ اللہ نے فتویٰ دیا کہ اسے نہ کھانا چاہیئے اس لیے کہ وہ ایک تصویر کے لیے ذبح کیا گیا، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا گیا کہ عجمی لوگ جو اپنے تہوار اور عید کے موقعہ پر جانور ذبح کرتے ہیں اور مسلمانوں کو بھی اس میں سے ہدیہ بھیجتے ہیں ان کا گوشت کھانا چاہیئے یا نہیں؟ تو فرمایا اس دن کی عظمت کے لیے جو جانور ذبح کیا جائے اسے نہ کھاؤ ہاں ان کے درختوں کے پھل کھاؤ۔ [تفسیر قرطبی:224/2] ‏‏‏‏
619

پھر اللہ تعالیٰ نے ضرورت اور حاجت کے وقت جبکہ کچھ اور کھانے کو نہ ملے ان حرام چیزوں کا کھا لینا مباح کیا ہے اور فرمایا جو شخص بے بس ہو جائے مگر باغی اور سرکش اور حد سے بڑھ جانے والا نہ ہو اس پر ان چیزوں کے کھانے میں گناہ نہیں اللہ تعالیٰ بخشش کرنے والا مہربان ہے باغ اور عاد کی تفسیر میں حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں، ڈاکو راہزن مسلمان بادشاہ پر چڑھائی کرنے والا سلطنت اسلام کا مخالف اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں سفر کرنے والا سبھی کے لیے اس اضطرار کے وقت بھی حرام چیزیں حرام ہی رہتی ہیں، غیر باغ کی تفسیر مقاتل بن حبان یہ بھی کرتے ہیں کہ وہ اسے حلال سمجھنے والا نہ ہو۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:236/1] ‏‏‏‏ اور اس میں لذت اور مزہ کا خواہشمند نہ ہو، اسے بھون بھان کر لذیذ بنا کر اچھا پکا کر نہ کھائے بلکہ جیسا تیسا صرف جان بچانے کے لیے کھا لے اور اگر ساتھ لے تو اتنا کہ زندگی کے ساتھ حلال چیز کے ملنے تک باقی رہ جائے جب حلال چیز مل گئی اسے پھینک دے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اسے خوب پیٹ بھر کر نہ کھائے، حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں جو شخص اس کے کھانے کے لیے مجبور کر دیا جائے اور بے اختیار ہو جائے اس کا بھی یہی حکم ہے۔
620

مسئلہ ٭٭

ایک شخص بھوک کے مارے بے بس ہو گیا ہے اسے ایک مردار جانور نظر پڑا اور کسی دوسرے کی حلال چیز بھی دکھائی دی جس میں نہ رشتہ کا ٹوٹنا ہے نہ ایذاء دہی ہے تو اسے اس دوسرے کی چیز کو کھا لینا چاہیئے مردار نہ کھائے، پھر آیا اس چیز کی قیمت یا وہی چیز اس کے ذمہ رہے گی یا نہیں اس میں دو قول ہیں ایک یہ کہ رہے گی دوسرے یہ کہ نہ رہے گی۔ نہ رہنے والے قول کی تائید میں یہ حدیث ہے جو ابن ماجہ میں ہے، عباد بن شرحبیل غبری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہمارے ہاں ایک سال قحط سالی پڑی میں مدینہ گیا اور ایک کھیت میں سے کچھ بالیں توڑ کر چھیل کر دانے چبانے لگا اور تھوڑی سی بالیں اپنی چادر میں باندھ کر چلا کھیت والے نے دیکھ لیا اور مجھے پکڑ کر مارا پیٹا اور میری چادر چھین لی، میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے واقعہ عرض کیا تو آپ نے اس شخص کو کہا اس بھوکے کو نہ تو تو نے کھانا کھلایا نہ اس کے لیے کوئی اور کوشش کی نہ اسے کچھ سمجھایا سکھایا یہ بے چارہ بھوکا تھا نادان تھا جاؤ اس کا کپڑا واپس کرو اور ایک وسق یا آدھا وسق غلہ اسے دے دو، [سنن ابوداود:2620، قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏ [ ایک وسق چار من کے قریب ہوتا ہے ] ‏‏‏‏ ایک اور حدیث میں ہے کہ درختوں میں لگے ہوئے پھلوں کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو حاجت مند شخص ان میں سے کچھ کھا لے، لے کر نہ جائے اس پر کچھ جرم نہیں۔ [سنن ابوداود:1710،قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏
621

حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں مطلب آیت کا یہ ہے کہ اضطراب اور بے بسی کے وقت اتنا کھا لینے میں کوئی مضائقہ نہیں جس سے بے بسی اور اضطرار ہٹ جائے، یہ بھی مروی ہے کہ تین لقموں سے زیادہ نہ کھائے غرض ایسے وقت میں اللہ کی مہربانی اور نوازش ہے یہ حرام اس کے لیے حلال ہے مسروق رحمہ اللہ فرماتے ہیں اضطرار کے وقت بھی جو شخص حرام چیز نہ کھائے اور مر جائے وہ جہنمی ہے، [بیھقی:357/9:ضعیف] ‏‏‏‏ اس سے معلوم ہوا کہ ایسے وقت ایسی چیز کھانی ضروری ہے نہ کہ صرف رخصت ہی ہو، یہی بات زیادہ صحیح ہے جیسے کہ بیمار کا روزہ چھوڑ دینا وغیرہ۔
622



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.